گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
فسانۂ جگرِ لخت لخت ایسا تھا

ذرا نہ موم ہوا پیار Ú©ÛŒ Ø+رارت سے
چٹخ کے ٹوٹ گیا، دل کا سخت ایسا تھا

یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے، لہجہ کرخت ایسا تھا

کہاں کی سیس نہ کی توسنِ تخیّل پر
ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا

ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ
کوئی نہ جان سکا ساز و رخت ایسا تھا